کہاں ہے کوئی خدا کا خدا کے بندوں میں
گھرا ہوا ہوں ابھی تک انا کے بندوں میں
نہ کوئی سمت مقرر نہ کوئی جائے قرار
ہے انتشار کا عالم ہوا کے بندوں میں
وہ کون ہے جو نہیں اپنی مصلحت کا غلام
کہاں ہے بوئے وفا اب وفا کے بندوں میں
خدا کرے کہ سماعت سے میں رہوں محروم
کبھی جو ذکر ہو میرا ریا کے بندوں میں
سزائیں میری طرح ہنس کے جھیلنے والا
نہیں ہے کوئی بھی عہد سزا کے بندوں میں
نا عافیت کی سحر ہے نہ انبساط کی شام
ہوں ایک عمر سے صحرا بلا کے بندوں میں
سخن شناس ہے کتنا یہ پوچھ لوں قیصرؔ
نظر وہ آئے جو حرف و نوا کے بندوں میں
غزل
کہاں ہے کوئی خدا کا خدا کے بندوں میں
قیصر شمیم