کہا گیا نہ کبھی اور کبھی سنا نہ گیا
میں ایسا حرف ہوں جو آج تک لکھا نہ گیا
دبا کے ہونٹوں میں لائی تھی مدعا کیا کیا
مگر وہ سامنے آیا تو کچھ کہا نہ گیا
بچھڑ کے تم سے ابھی تک بھٹک رہی ہوں میں
تمہارے گھر کی طرف کوئی راستہ نہ گیا
ابھی بھی یاد ہے تم کو ہمارے ہاتھ کی چائے
خدا کا شکر ابھی تک وہ ذائقہ نہ گیا
کئی مواقع مری زندگی میں آئے مگر
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
میں اپنے چہرے پر آنکھیں تلاش کرتی رہی
وہ جب تلک مجھے اپنی جھلک دکھا نہ گیا
میں آتے آتے نشانے پہ رہ گئی رخشاںؔ
کہ اب کے بار بھی اس کا غلط نشانہ گیا

غزل
کہا گیا نہ کبھی اور کبھی سنا نہ گیا
رخشاں ہاشمی