کبوتر جس طرف سے آ رہا ہے
ادھر تیروں کا لشکر جا رہا ہے
بدن کرنوں کا میلا ہو نہ جائے
فضا میں وہ دھواں پھیلا رہا ہے
ہمارے کل کو مہکانا ہے اس نے
مگر وہ پھول تو مرجھا رہا ہے
یہ میری لاش کو ساحل پہ رکھ کر
سمندر کس طرف کو جا رہا ہے
میں کھو جاتا کہیں ظلمت میں لیکن
مجھے رستہ کوئی دکھلا رہا ہے
نہیں پیچھے بھی مڑ کے میں نے دیکھا
یہ میرا جسم کیوں پتھرا رہا ہے
کوئی زینہ تو پاؤں میں ہے خاورؔ
جو اس تیزی سے اوپر جا رہا ہے
غزل
کبوتر جس طرف سے آ رہا ہے
خاقان خاور