EN हिंदी
کبھی تم نے کچھ تو دیا نہیں کبھی ہم نے کچھ تو لیا نہیں | شیح شیری
kabhi tumne kuchh to diya nahin kabhi humne kuchh to liya nahin

غزل

کبھی تم نے کچھ تو دیا نہیں کبھی ہم نے کچھ تو لیا نہیں

احمد ہمیش

;

کبھی تم نے کچھ تو دیا نہیں کبھی ہم نے کچھ تو لیا نہیں
ہمیں زندگی سے ہو بحث کیا کوئی واقعہ تو ہوا نہیں

مگر ایسی کوئی خلش بھی تھی جو فقط ہمارا نصیب تھی
کہ جو روگ ہم نے لگا لیا کسی اور کو تو لگا نہیں

ذرا دیکھنا کہ وہ کون ہے پس رمز وحشت عاشقی
بھلا کس نے ہم کو شکست دی کبھی پہلے ایسا ہوا نہیں

جسے پاس آنا تھا آ گیا اور نفس کے تار بھی جڑ گئے
کہ طلب کی تھیں یہی منزلیں کوئی فاصلہ تو رہا نہیں

بڑی وسعتیں ہیں زمین پر ہمیں اور چاہئے کیا مگر
وہ جو حسن اس کی نظر میں ہے کوئی اس سے بڑھ کر ملا نہیں

وہ جو مل چکی ہیں اذیتیں چلو مان لیں کہ بہت ہوا
مگر اب ملا ہے جو حوصلہ کسی اور کو تو ملا نہیں