EN हिंदी
کبھی سکوں تو کبھی اضطراب بھی جھیلا | شیح شیری
kabhi sukun to kabhi iztirab bhi jhela

غزل

کبھی سکوں تو کبھی اضطراب بھی جھیلا

ضیا فاروقی

;

کبھی سکوں تو کبھی اضطراب بھی جھیلا
کھلی جو آنکھ تو انجام خواب بھی جھیلا

قدم قدم پہ پرانے سبق بھی یاد آئے
قدم قدم پہ بدلتا نصاب بھی جھیلا

بیاض دل کے سنہرے حروف بھی چومے
کتاب جاں پہ لکھا انتساب بھی جھیلا

ہمارا حق بھی مسلم تھا قطرے قطرے پر
ہمیں نے تشنہ لبی کا عذاب بھی جھیلا

کبھی جو آئینہ خانے کی سیر کو نکلے
تو ایک منظر خود احتساب بھی جھیلا

چلے تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلے
رکے تو عالم خود‌‌ اجتناب بھی جھیلا

نہ جانے کس کی رہی جستجو ضیاؔ ہم کو
کہ ہم نے اک دل خانہ خراب بھی جھیلا