EN हिंदी
کبھی نہ آسودۂ عمل ہو مگر ارادہ بھی کم نہیں ہے | شیح شیری
kabhi na aasuda-e-amal ho magar irada bhi kam nahin hai

غزل

کبھی نہ آسودۂ عمل ہو مگر ارادہ بھی کم نہیں ہے

خالد اقبال یاسر

;

کبھی نہ آسودۂ عمل ہو مگر ارادہ بھی کم نہیں ہے
اور اس ارادے کا اونچی آواز میں اعادہ بھی کم نہیں ہے

شہنشہ وقت اور درباری اپنے سود و زیاں سے واقف
سریر آرائے سلطنت کوئی خانوادہ بھی کم نہیں ہے

عصائے فرماں روائی جادو جگائے جس طور بھی روا ہے
رموز اسرار حکمرانی میں شاہزادہ بھی کم نہیں ہے

کوئی رکھے بے جہت سفر میں مسافتوں کا حساب کیسے
کہ توسن بے زمام کو بے نشان جادہ بھی کم نہیں ہے

یہی بہت ہے کسی طرح سے بھرم ہی رہ جائے پیش دنیا
اگر میسر نہیں ہے بادہ خیال بادہ بھی کم نہیں ہے

مجھ ایسے افتادگاں کی ڈھارس نہ جانے کیسے بندھی ہوئی ہے
پہاڑ سی عمر کاٹنے کو یہ ذہن سادہ بھی کم نہیں ہے

کسی کا کھوٹا نصیب یاسرؔ کسے خبر کس گھڑی کھرا ہو
جلوس شاہی کے ساتھ اک بے زباں پیادہ بھی کم نہیں ہے