کبھی ملی ہے جو فرصت تو یہ حساب کیا
ثواب کتنے کئے کتنا ارتکاب کیا
ہمیشہ اپنے عمل کا خود احتساب کیا
خود اپنے آپ کو ایسے بھی بے نقاب کیا
تمام عمر بھٹکتے رہے گمانوں میں
وہ شے ملی ہی نہیں جس کا انتخاب کیا
دراز کر نہ سکے پھر بھی کاسۂ غیرت
طرح طرح سے طبیعت نے بے حجاب کیا
کبھی تو ضبط نے دریا کو کر دیا صحرا
کبھی جنوں نے بھی صحرا کو آب آب کیا
الگ نہ ہو سکا دل یاد رفتگاں سے کبھی
ترے خیال سے ہر چند اجتناب کیا
یہ زندگی ہمیں کیسے معاف کر دیتی
وہ وقت وقت تھا ہم نے جسے خراب کیا
جواب دے گئیں ساری ذہانتیں سالمؔ
کسی سوال نے تا عمر لا جواب کیا
غزل
کبھی ملی ہے جو فرصت تو یہ حساب کیا
سالم شجاع انصاری