EN हिंदी
کبھی کسی نے جو دل دکھایا تو دل کو سمجھا گئی اداسی | شیح شیری
kabhi kisi ne jo dil dukhaya to dil ko samjha gai udasi

غزل

کبھی کسی نے جو دل دکھایا تو دل کو سمجھا گئی اداسی

تری پراری

;

کبھی کسی نے جو دل دکھایا تو دل کو سمجھا گئی اداسی
محبتوں کے اصول سارے ہمیں بھی سکھلا گئی اداسی

تمہیں جو سوچا تو میرے دل سے اداسیوں کا ہجوم گزرا
کبھی کبھی تو ہوا ہے یوں بھی کہ بے سبب چھا گئی اداسی

پڑی ہوئی تھی نڈھال ہو کر ہماری آنکھوں کے آنگنوں میں
کسی کی آہٹ سنی تو چونکی ذرا سی گھبرا گئی اداسی

ذرا سی دوری پہ بیٹھ کر وہ نگاہ مجھ سے ملا رہی تھی
جو اپنی بانہوں میں بھر لیا تو ادا سے شرما گئی اداسی

وہ دور بھی تھا کہ فاصلوں سے گزر رہی تھی ندی کی صورت
نہ جانے کس کی دعا ہے یاروں کہ مجھ میں بھی آ گئی اداسی

نہ جانے کن پہلوؤں میں رہ کر ہوئی ہے گہری مری اداسی
نہ جانے کن کن لبوں سے پی کر یے زندگی پا گئی اداسی

ملی تھی جس دن لگا تھا یوں کے نہیں بنے گی کبھی ہماری
جو ساتھ ہم نے بتائے کچھ دن تو ایک دن بھا گئی اداسی