کبھی جو آنکھوں کے آ گیا آفتاب آگے
ترے تصور میں ہم نے کر لی کتاب آگے
وہ بعد مدت ملا تو رونے کی آرزو میں
نکل کے آنکھوں سے گر پڑے چند خواب آگے
دل و نظر میں ہی اپنے خیمے لگا لئے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ راستہ ہے خراب آگے
نظر کے حیرت کدے میں کب کا کھڑا ہوا ہوں
اک آئنے میں کھلا ہوا ہے گلاب آگے
گزرنے والا تھا رہ گزار حیات سے میں
وہ ایک لمحہ کہ آ گئے پھر جناب آگے
حسنؔ جو ماضی کا صفحہ الٹا تو آ گئے ہیں
کھجور کے پیڑ ٹیلے اور ماہتاب آگے

غزل
کبھی جو آنکھوں کے آ گیا آفتاب آگے
حسن عباسی