EN हिंदी
کبھی ہوا کبھی بجلی کے ہم رکاب ہوا | شیح شیری
kabhi hawa kabhi bijli ke ham-rikab hua

غزل

کبھی ہوا کبھی بجلی کے ہم رکاب ہوا

ناز قادری

;

کبھی ہوا کبھی بجلی کے ہم رکاب ہوا
پھر اس کے بعد میں جینے میں کامیاب ہوا

نظر نواز نظارے تھے میرے چاروں طرف
کھلی جو آنکھ تو برہم وہ سارا خواب ہوا

کبھی جو باعث راحت تھا اہل دل کے لئے
یہ کیا ہوا کہ وہ منظر بھی اب عذاب ہوا

وہ العطش کی صدائیں وہ کرب تشنہ لبی
فرات جس کے تصور سے آب آب ہوا

ہماری چیخ فضاؤں میں کھو گئی یعنی
کھلا دریچہ کوئی وا نہ کوئی باب ہوا

ہمارے قتل کی سازش میں تھا شریک تو کیا
خطا معاف کرم اس کا بے حساب ہوا

انا پسند طبیعت کی سرفرازی دیکھ
کہ نازؔ خاک میں مل کر بھی آفتاب ہوا