EN हिंदी
کبھی ہنس کر کبھی آنسو بہا کر دیکھ لیتا ہوں | شیح شیری
kabhi hans kar kabhi aansu baha kar dekh leta hun

غزل

کبھی ہنس کر کبھی آنسو بہا کر دیکھ لیتا ہوں

نذیر قیصر

;

کبھی ہنس کر کبھی آنسو بہا کر دیکھ لیتا ہوں
میں ہر چہرے کو آئینہ دکھا کر دیکھ لیتا ہوں

بہت بے چین کر دیتی ہیں جب تنہائیاں گھر کی
در و دیوار پر شکلیں بنا کر دیکھ لیتا ہوں

چھپاتا ہے بہت مجھ کو مرا سایہ مگر پھر بھی
میں خود کو روشنی سے دور جا کر دیکھ لیتا ہوں

نظر آتا نہیں جب حرف کوئی لوح عالم پر
میں اپنا نام لکھ کر اور مٹا کر دیکھ لیتا ہوں

جسے دیکھا نہیں ہے دیکھ کر بھی میری آنکھوں نے
میں اس کو اپنے خوابوں میں سجا کر دیکھ لیتا ہوں

نہیں ملتا کہیں جب اپنی ہستی کا نشاں مجھ کو
میں اپنا عکس پانی میں بہا کر دیکھ لیتا ہوں

جسے دیکھا نہیں روتا ہوں اس کی یاد میں شب بھر
جسے پایا نہیں اس کو گنوا کر دیکھ لیتا ہوں

کبھی کرنا ہو اندازہ جب اپنے درد کا مجھ کو
میں اس بے درد کے دل کو دکھا کر دیکھ لیتا ہوں

پہن لیتی ہیں جب شاخیں ہرے موسم کے پیراہن
کوئی ٹوٹا ہوا پتا اٹھا کر دیکھ لیتا ہوں