کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
نہ کسی کے دل میں غبار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ چلی ہے کیسی ہوا کہ اب نہیں کھلتے پھول ملاپ کے
کبھی دور فصل بہار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھیں بہم نشاط کی محفلیں تھیں قدم میں لطف کی منزلیں
بڑا زندگی پہ نکھار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھی ہر ایک بات میں چاشنی حق و صدق و لطف و خلوص کی
رہ حق پہ چلنا شعار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے لڑ کے ہم سے اگر جدا رکھی اور ملک کی اک بنا
یہ تمہیں کا شوق فرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئی جنگ و حرب کی ابتدا تو بتاؤ بس یہی اک پتا
کوئی تم میں ننگ وقار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
غزل
کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
عرش ملسیانی