EN हिंदी
کب تک اس کا ہجر مناتا صحرا چھوڑ دیا | شیح شیری
kab tak us ka hijr manata sahra chhoD diya

غزل

کب تک اس کا ہجر مناتا صحرا چھوڑ دیا

عبید صدیقی

;

کب تک اس کا ہجر مناتا صحرا چھوڑ دیا
جینے کی امید میں میں نے کیا کیا چھوڑ دیا

میرے ساتھ لگا رہتا ہے یادوں کا بادل
دھوپ بھرے رستوں پر اس نے سایہ چھوڑ دیا

ہر چہرے پر اک چہرے کا دھوکہ ہوتا ہے
کس نے مجھ کو اس بستی میں تنہا چھوڑ دیا

دنیا سب کچھ جان گئی ہے میرے بارے میں
بنت الم نے نامحرم سے پردہ چھوڑ دیا

پہلے پہلے خوف بہت آتا تھا مرنے سے
پھر وہ منزل آئی میں نے ڈرنا چھوڑ دیا