EN हिंदी
کب قابل تقلید ہے کردار ہمارا | شیح شیری
kab qabil-e-taqlid hai kirdar hamara

غزل

کب قابل تقلید ہے کردار ہمارا

حیات لکھنوی

;

کب قابل تقلید ہے کردار ہمارا
ہر لمحہ گزرتا ہے خطا‌ وار ہمارا

مرنا بھی جو چاہیں تو وہ مرنے نہیں دے گا
جینا بھی کیے رہتا ہے دشوار ہمارا

اچھا ہے ادھر کچھ نظر آتا نہیں ہم کو
جو کچھ بھی ہے وہ سب پس دیوار ہمارا

اک روز تو یہ فاصلہ طے کر کے رہیں گے
ہے کب سے کوئی منتظر اس پار ہمارا

ہم کو یہ خوشی ہے کہ ادھر آئے تو پتھر
ہے شہر میں کوئی تو طلب گار ہمارا

کوئی تو یہ تنہائی کا احساس مٹائے
کوئی تو نظر آئے طرفدار ہمارا

ہم نے تو حیاتؔ آس لگائی ہے خدا سے
ہے اس کے سوا کون مددگار ہمارا