کب قابل تقلید ہے کردار ہمارا
ہر لمحہ گزرتا ہے خطا وار ہمارا
مرنا بھی جو چاہیں تو وہ مرنے نہیں دے گا
جینا بھی کیے رہتا ہے دشوار ہمارا
اچھا ہے ادھر کچھ نظر آتا نہیں ہم کو
جو کچھ بھی ہے وہ سب پس دیوار ہمارا
اک روز تو یہ فاصلہ طے کر کے رہیں گے
ہے کب سے کوئی منتظر اس پار ہمارا
ہم کو یہ خوشی ہے کہ ادھر آئے تو پتھر
ہے شہر میں کوئی تو طلب گار ہمارا
کوئی تو یہ تنہائی کا احساس مٹائے
کوئی تو نظر آئے طرفدار ہمارا
ہم نے تو حیاتؔ آس لگائی ہے خدا سے
ہے اس کے سوا کون مددگار ہمارا
غزل
کب قابل تقلید ہے کردار ہمارا
حیات لکھنوی