کب لوگوں نے الفاظ کے پتھر نہیں پھینکے
وہ خط بھی مگر میں نے جلا کر نہیں پھینکے
ٹھہرے ہوئے پانی نے اشارہ تو کیا تھا
کچھ سوچ کے خود میں نے ہی پتھر نہیں پھینکے
اک طنز ہے کلیوں کا تبسم بھی مگر کیوں
میں نے تو کبھی پھول مسل کر نہیں پھینکے
ویسے تو ارادہ نہیں توبہ شکنی کا
لیکن ابھی ٹوٹے ہوئے ساغر نہیں پھینکے
کیا بات ہے اس نے مری تصویر کے ٹکڑے
گھر میں ہی چھپا رکھے ہیں باہر نہیں پھینکے
دروازوں کے شیشہ نہ بدلوائیے نظمیؔ
لوگوں نے ابھی ہاتھ سے پتھر نہیں پھینکے
غزل
کب لوگوں نے الفاظ کے پتھر نہیں پھینکے
اختر نظمی