کب اک مقام پہ رکتی ہے سرپھری ہے ہوا
تمام شہر و بیاباں کو چھانتی ہے ہوا
نصیب پائے جنوں ہے سدا کی در بدری
ہوائے جادہ و منزل میں کب چلی ہے ہوا
یہ پیچ و تاب ہے کیسا سبب نہیں کھلتا
بنا بنا کے بگولے بگاڑتی ہے ہوا
سوائے خاک نہ کچھ ہاتھ آج تک آیا
سراب ریت سے صحرا میں چھانتی ہے ہوا
غضب کا غیظ و غضب تھا جو ہم نہ بکھرے تھے
بکھر گئے ہیں تو کیسی ڈری کھڑی ہے ہوا
اکھاڑ توڑ کے بستی کے سب مکانوں کو
چھپی کھنڈر میں پشیمان رو رہی ہے ہوا
وہ ایک بات جو خود سے بھی ہم نہ کہتے تھے
زباں زباں پہ وہی بات دھر گئی ہے ہوا
تمام لالہ و گل کے چراغ روشن ہیں
شجر شجر پہ شگوفوں میں جل رہی ہے ہوا
کب اپنا ہاتھ پہنچتا گلاب تک بلقیسؔ
مرے نصیب سے شاخوں میں جا پھنسی ہے ہوا
غزل
کب اک مقام پہ رکتی ہے سرپھری ہے ہوا
بلقیس ظفیر الحسن