EN हिंदी
کام آتی نہیں اب کوئی تدبیر ہماری | شیح شیری
kaam aati nahin ab koi tadbir hamari

غزل

کام آتی نہیں اب کوئی تدبیر ہماری

سلطان اختر

;

کام آتی نہیں اب کوئی تدبیر ہماری
ہم سے ہے خفا صاحبو تقدیر ہماری

آتا ہی نہیں باز کبھی کار زیاں سے
پانی پہ بناتا ہے وہ تصویر ہماری

اب سر پہ ٹھہرتی نہیں دستار شجاعت
خود اپنا لہو پیتی ہے شمشیر ہماری

ہم خانہ خرابی کے اثر سے نہیں نکلے
پوری نہ ہوئی حسرت تعمیر ہماری

اب روبرو آتی ہی نہیں صبح مسرت
ٹلتی ہی نہیں ہے شب دلگیر ہماری

ہر شخص حقارت سے ہمیں دیکھ رہا ہے
کوئی بھی بتاتا نہیں تقصیر ہماری

وہ گوشۂ تنہائی میں پڑھتا ہے شب و روز
اس کے ورق دل پہ ہے تحریر ہماری

گمراہ نہ ہونے دیا ثابت قدمی نے
شائستۂ تہذیب ہے زنجیر ہماری

ہم وجد میں ڈوبے رہے اور ریت کی صورت
مٹھی سے سرکتی رہی جاگیر ہماری

بے تاب و تواں زینت دیوار ہے اخترؔ
اب لرزہ بر اندام ہے شمشیر ہماری