کاغذ کاغذ دھول اڑے گی فن بنجر ہو جائے گا
جس دن سوکھے دل کے آنسو سب پتھر ہو جائے گا
ٹوٹیں گی جب نیند سے پلکیں سو جاؤں گا چپکے سے
جس جنگل میں رات پڑے گی میرا گھر ہو جائے گا
خوابوں کے یہ پنچھی کب تک شور کریں گے پلکوں پر
شام ڈھلے گی اور سناٹا شاخوں پر ہو جائے گا
رات قلم لے کر آئے گی اتنی سیاہی چھڑکے گی
دن کا سارا منظر نامہ بے منظر ہو جائے گا
ناخن سے بھی اینٹ کریدیں مل جل کر ہمسائے تو
آنگن کی دیوار نہ ٹوٹے لیکن در ہو جائے گا
قیصرؔ رو لو غزلیں کہہ لو باقی ہے کچھ درد ابھی
اگلی رتوں میں یوں لگتا ہے سب پتھر ہو جائے گا
غزل
کاغذ کاغذ دھول اڑے گی فن بنجر ہو جائے گا
قیصر الجعفری