کائنات غم میں ذہن اک خلا ہے
خواب کا پرندہ جس میں اڑ رہا ہے
رات کٹ گئی ہے صبح ہو گئی ہے
دل کو ڈھونڈیئے مت کب کا جل بجھا ہے
درد کے سہارے کب تلک چلیں گے
سانس رک رہی ہے فاصلہ بڑا ہے
اس جگہ پہ سب نے ہاتھ چھوڑ ڈالا
یہ مقام شاید منزل وفا ہے
ٹوٹتے بدن میں دل عجیب شے ہے
رتیلی زمیں میں پھول کھل رہا ہے
کیوں ہوا نے بدلیں میرے منہ کی باتیں
میں نے کچھ کہا ہے اس نے کچھ سنا ہے
تیری کیا یہ حالت ہو گئی ہے مامونؔ
خود ہی کہہ رہا ہے خود ہی سن رہا ہے
غزل
کائنات غم میں ذہن اک خلا ہے
خلیل مامون