جنوں تلاش میں ہے پا نہ لے بہار مجھے
ندیم! اب نہ مرے نام سے پکار مجھے
سرور بادۂ نا خوردہ رقص بزم حیات
بہت پسند ہے آئین انتظار مجھے
پھر آج ہم سفر زندگی کہاں ہوں میں
یہ کون راہ بھلاتا ہے بار بار مجھے
زمانہ سازیٔ احباب ابھی نہیں سمجھا
سمجھ رہا ہوں زمانہ ہے سازگار مجھے
سقوط نبض خبر ہے سکون خاطر کی
اب آ چلا ہے اب آ جائے گا قرار مجھے
گو دوستی نہ سہی دشمنی نباہ تو دی
ملا نصیب سے دشمن وفا شعار مجھے
عدم کا زندہ نمونہ ہوں میں یہاں ناطقؔ
وجود مانگ کے لایا ہے مستعار مجھے
غزل
جنوں تلاش میں ہے پا نہ لے بہار مجھے
ناطق گلاوٹھی