EN हिंदी
جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں | شیح شیری
junun ke taur hum idrak hi se bandhte hain

غزل

جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں

ارشد عبد الحمید

;

جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں
کہ تیر و تار کو فتراک ہی سے باندھتے ہیں

بیوں کو شاخ گل تر ہی راس آتی ہے
اگرچہ گھونسلے خاشاک ہی سے باندھتے ہیں

فلک سے نور و تمازت تو لیتے ہیں لیکن
شجر جڑوں کو فقط خاک ہی سے باندھتے ہیں

لہو سے صرف نظر کی عجب روایت ہے
امید نشہ یہاں تاک ہی سے باندھتے ہیں

ہم اپنے ہاتھوں پہ اتراتے ہیں مگر ارشدؔ
طلسم کوزہ گری چاک ہی سے باندھتے ہیں