جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں
کہ تیر و تار کو فتراک ہی سے باندھتے ہیں
بیوں کو شاخ گل تر ہی راس آتی ہے
اگرچہ گھونسلے خاشاک ہی سے باندھتے ہیں
فلک سے نور و تمازت تو لیتے ہیں لیکن
شجر جڑوں کو فقط خاک ہی سے باندھتے ہیں
لہو سے صرف نظر کی عجب روایت ہے
امید نشہ یہاں تاک ہی سے باندھتے ہیں
ہم اپنے ہاتھوں پہ اتراتے ہیں مگر ارشدؔ
طلسم کوزہ گری چاک ہی سے باندھتے ہیں
غزل
جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں
ارشد عبد الحمید