جنوں کا کوئی فسانہ تو ہاتھ آنے دو
میں رو پڑوں گا بہانہ تو ہاتھ آنے دو
میں اپنی ذات کے روشن کروں گا ویرانے
قبولیت کا زمانہ تو ہاتھ آنے دو
میں روپ اور سنواروں گا داستانوں کے
کسی کا قصہ پرانا تو ہاتھ آنے دو
مری نظر میں زمانے کی کج ادائی ہے
نشاں بہت ہیں نشانہ تو ہاتھ آنے دو
خرید لوں گا میں دنیا ضمیر کی ساحلؔ
ذرا رکو یہ خزانہ تو ہاتھ آنے دو
غزل
جنوں کا کوئی فسانہ تو ہاتھ آنے دو
خالد ملک ساحلؔ