EN हिंदी
جنوں کا کوئی فسانہ تو ہاتھ آنے دو | شیح شیری
junun ka koi fasana to hath aane do

غزل

جنوں کا کوئی فسانہ تو ہاتھ آنے دو

خالد ملک ساحلؔ

;

جنوں کا کوئی فسانہ تو ہاتھ آنے دو
میں رو پڑوں گا بہانہ تو ہاتھ آنے دو

میں اپنی ذات کے روشن کروں گا ویرانے
قبولیت کا زمانہ تو ہاتھ آنے دو

میں روپ اور سنواروں گا داستانوں کے
کسی کا قصہ پرانا تو ہاتھ آنے دو

مری نظر میں زمانے کی کج ادائی ہے
نشاں بہت ہیں نشانہ تو ہاتھ آنے دو

خرید لوں گا میں دنیا ضمیر کی ساحلؔ
ذرا رکو یہ خزانہ تو ہاتھ آنے دو