جنوں عرفان بن کر رہ گیا ہے
یہ کفر ایمان بن کر رہ گیا ہے
یہ کافی گھر مری شاموں کا محور
مری پہچان بن کر رہ گیا ہے
فرشتہ جس کو بننا تھا وہ انساں
فقط حیوان بن کر رہ گیا ہے
وہ تھا اک نکتہ داں خوش فکر شاعر
مگر نادان بن کر رہ گیا ہے
سخن میرا تری بزم طرب میں
سریلی تان بن کر رہ گیا ہے
یہ کیسی محویت ہے میرا ہونا
ترا پیمان بن کر رہ گیا ہے
ہوئے نا پید احساس و تخیل
ادب بے جان بن کر رہ گیا ہے
جدیدیت میں بے چارا سخنور
خرد کی شان بن کر رہ گیا ہے
دبستان سخن اب کرشنؔ موہن
شعورستان بن کر رہ گیا ہے

غزل
جنوں عرفان بن کر رہ گیا ہے
کرشن موہن