جنون شوق کی راہوں میں جب اپنے قدم نکلے
نگار حسن کی زلفوں کے سارے پیچ و خم نکلے
یہ بے نوری مرے گھر کے اجالوں کی معاذ اللہ
اگر دیکھیں اندھیرے تو اندھیروں کا بھی دم نکلے
ابھارے جائیے جب تک نہ ابھرے نقش کاغذ پر
تراشے جائیے جب تک نہ پتھر سے صنم نکلے
نہیں دیکھا تھا جب تک خود کو سمجھے تھے نہ جانے کیا
شعور عشق لے کر آئنہ خانے سے ہم نکلے
یہ حسرت ہے سجا لوں اپنے ہونٹوں پر ہنسی میں بھی
گھڑی بھر کو مرے دل سے اگر احساس غم نکلے
فراز عرش تک کیسے پہنچتے وہ بھلا شاہدؔ
فضائے طور کی حد سے نہ آگے جو قدم نکلے
غزل
جنون شوق کی راہوں میں جب اپنے قدم نکلے
شاہد بھوپالی