جنون دل کا ابھی ترجمان باقی ہے
لبوں پہ مہر لگی ہے زبان باقی ہے
گئی رتوں کا ابھی تک نشان باقی ہے
گلی میں ایک شکستہ مکان باقی ہے
نہ پوچھیے ابھی عنواں مرے فسانے کا
یہ ابتدا ہے ابھی داستان باقی ہے
ڈبو دیا تھا کبھی جس کو تند طوفاں نے
اسی سفینے کا اک بادبان باقی ہے
ہزار بار زمانے نے کروٹیں بدلیں
ہمارے سر پہ وہی آسمان باقی ہے
اک آشیانے پہ بجلی گری تو رونا کیا
ہمارے واسطے سارا جہان باقی ہے
نگارؔ خانۂ دل میں بسی ہے ویرانی
مکیں چلا گیا لیکن مکان باقی ہے
غزل
جنون دل کا ابھی ترجمان باقی ہے
نگار عظیم