جلوس تیغ و علم جانے کس دیار کا ہے
پس غبار بھی اک سلسلہ غبار کا ہے
خلائے جاں کا سفر اور پھر تن تنہا
یہ راستہ بھی بڑے جبر و اختیار کا ہے
تم آ گئے ہو تو مجھ کو ذرا سنبھلنے دو
ابھی تو نشہ سا آنکھوں میں انتظار کا ہے
مقام بے خبری ہے یہاں سے کتنی دور
کہ شہر دل میں بڑا شور شہریار کا ہے
نہیں ہے سہل مری طرز پر غزل کہنا
شعار یہ کسی یکتائے روزگار کا ہے
غزل
جلوس تیغ و علم جانے کس دیار کا ہے
محمد احمد رمز