EN हिंदी
جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے | شیح شیری
juda kya ho gae tum se na phir yakja hue KHud se

غزل

جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے

صلاح الدین ندیم

;

جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے
ملا وہ اختیار آخر کہ ہم تنہا ہوئے خود سے

تہ آب دل و جاں موتیوں کی طرح رہتے ہیں
جو منظر اس جہان خاک میں پیدا ہوئے خود سے

چھپا لیتے تری صورت ہم اپنی آنکھ میں دل میں
لب گویا کے ہاتھوں کس لئے رسوا ہوئے خود سے

اڑی وہ خاک دل صورت نظر آتی نہیں اپنی
پریشاں ہو گئے اتنے کہ برگشتہ ہوئے خود سے

وہ جھیلیں سختیاں جاں پر کہ دل پتھر ہوا اپنا
بچایا اس قدر خود کو کہ بے پروا ہوئے خود سے

ملا وہ نور آنکھوں کو کہ بے سایہ ہوئے ہم بھی
حجاب لا مکاں پایا جو بے پروا ہوئے خود سے

پڑے تھے بے خبر کب سے خموشی کے سمندر میں
ہوا ایسی چلی ہم زمزمہ پیرا ہوئے خود سے

اب اس ذوق حضوری کے مزے کس سے بیاں کیجیے
ہم اپنی خلوتوں میں کس طرح گویا ہوئے خود سے

ندیمؔ اپنے سفینے کو بہا کر لے گئے ہر سو
جو طوفاں قلزم جاں میں مرے برپا ہوئے خود سے