EN हिंदी
جو یہ کہتے تھے کہ مر جانا ہے | شیح شیری
jo ye kahte the ki mar jaana hai

غزل

جو یہ کہتے تھے کہ مر جانا ہے

نونیت شرما

;

جو یہ کہتے تھے کہ مر جانا ہے
ان سے جینے کا ہنر جانا ہے

کس نے سوچا تھا کہ خود سے مل کر
اپنی آواز سے ڈر جانا ہے

حادثا موت نہیں انساں کی
حادثہ خواب کا مر جانا ہے

حضرت دل کو منانا ہوگا
آج پھر اس کی ڈگر جانا ہے

کچھ ہوا، آگ، زمیں، آب، فلک
پھر مجھے لوٹ کے گھر جانا ہے

ایک بالشت نہیں جس کی چھاؤں
تم نے اس کو بھی شجر جانا ہے

ساتھ رکھ مجھ کو بڑھا لے قیمت
گو مجھے تو نے صفر جانا ہے

آج پھر تم کو نہیں ڈھونڈ سکا
دل کو صحرا میں پسر جانا ہے

آپ بھی سنئے کہا ہے دل نے
''آج ہر حد سے گزر جانا ہے''

سلسلہ توڑ رہے ہو کیوں کر
سلسلہ خود ہی بکھر جانا ہے

یاد کی گھاس تو گیلی ہے بہت
اب دھواں دل پہ پسر جانا ہے

دل کو سیراب کیا اشکوں سے
ہم نے رونے کا ہنر جانا ہے

اپنا جو بھی تھا وہ سب چھوٹ گیا
یہ مگر وقت سفر جانا ہے