EN हिंदी
جو تم اور صبح اور گلنار خنداں ہو کے مل بیٹھے | شیح شیری
jo tum aur subh aur gulnar-e-KHandan ho ke mil baiThe

غزل

جو تم اور صبح اور گلنار خنداں ہو کے مل بیٹھے

بقا اللہ بقاؔ

;

جو تم اور صبح اور گلنار خنداں ہو کے مل بیٹھے
تو ہم بھی ان میں با چاک گریباں ہو کے مل بیٹھے

نہیں کھلتے جو لوں اس شہد لب سے بوسۂ ثانی
یہ لب یوں بوسۂ اول میں چسپاں ہو کے مل بیٹھے

اڑا دوں دھجیاں دل کی اگر ان میں سے کوئی بھی
قبائے سرخ میں تیری گریباں ہو کے مل بیٹھے

یہ جزو ہم دگر ہیں اے کماں ابرو عجب مت کر
جو دل تیرے سر ناوک پہ پیکاں ہو کے مل بیٹھے

ابھی دل جمع ہے اے شانہ کر جلدی سراغ اس کا
مباد اس زلف مشکیں میں پریشاں ہو کے مل بیٹھے

سنا اے طفل جب مژدہ تری مکتب نشینی کا
یہ اجزائے دل سیپارہ قرآں ہو کے مل بیٹھے

ہمارا رشک سے دل جل کے خاکستر ہو یا قسمت
اور ان داموں میں مسی زیب دنداں ہو کے مل بیٹھے

یہ وہ مجمع نہیں ناصح جہاں ہو دخل دانا کو
مگر تجھ سا کوئی مکار ناداں ہو کے مل بیٹھے

یہ انساں زا پری وش ایسے دل کش ہیں کہ بے وحشت
پری آوے اگر ان میں تو انساں ہو کے مل بیٹھے

یہ اطفال حسیں عاشق کا جی لینے میں شیطاں ہیں
جیے عاشق وہی ان میں جو شیطاں ہو کے مل بیٹھے

بقاؔ ہم گبر نا مسلم تھے پر آ کر بہ ناچاری
وہ مسلم زادہ طفلوں میں مسلماں ہو کے مل بیٹھے