EN हिंदी
جو شکایت غم زندگی کبھی لب پر اپنے نہ لا سکے | شیح شیری
jo shikayat-e-gham-e-zindagi kabhi lab par apne na la sake

غزل

جو شکایت غم زندگی کبھی لب پر اپنے نہ لا سکے

صائب عاصمی

;

جو شکایت غم زندگی کبھی لب پر اپنے نہ لا سکے
وہ شب فراق کی داستاں بھلا کیا کسی کو سنا سکے

کئی سر سے گزریں قیامتیں پڑیں ہم پہ لاکھ مصیبتیں
دیں فلک نے کتنی اذیتیں تمہیں دل سے ہم نہ بھلا سکے

تو وفا شناس ضرور ہے یہ تمام اپنا قصور ہے
یہ عجب جنوں کا غرور ہے ترے آستاں پہ نہ جا سکے

وہی درد دل کی ہے داستاں جو ہمیشہ دل میں رہے نہاں
کرے ایک بار کوئی بیاں تو زمانے بھر کو رلا سکے