جو شکایت غم زندگی کبھی لب پر اپنے نہ لا سکے
وہ شب فراق کی داستاں بھلا کیا کسی کو سنا سکے
کئی سر سے گزریں قیامتیں پڑیں ہم پہ لاکھ مصیبتیں
دیں فلک نے کتنی اذیتیں تمہیں دل سے ہم نہ بھلا سکے
تو وفا شناس ضرور ہے یہ تمام اپنا قصور ہے
یہ عجب جنوں کا غرور ہے ترے آستاں پہ نہ جا سکے
وہی درد دل کی ہے داستاں جو ہمیشہ دل میں رہے نہاں
کرے ایک بار کوئی بیاں تو زمانے بھر کو رلا سکے

غزل
جو شکایت غم زندگی کبھی لب پر اپنے نہ لا سکے
صائب عاصمی