جو شخص مرا دست ہنر کاٹ رہا ہے
نادان ہے شاداب شجر کاٹ رہا ہے
کیا یاد نہیں ظلم کا انجام زمانے
کیا سوچ کے سچائی کا سر کاٹ رہا ہے
فطرت کو کئی چہروں کی پرتوں میں چھپا کر
جانے یہ سزا کیسی بشر کاٹ رہا ہے
تعریف غم ہجر کی کیا مجھ سے بیاں ہو
اک زہر ہے جو قلب و جگر کاٹ رہا ہے
دل آج ترے عہد محبت کے بھروسے
تنہائی کا دشوار سفر کاٹ رہا ہے
کل ساتھ تھا کوئی تو در و بام تھے روشن
تنہا ہوں وسیمؔ آج تو گھر کاٹ رہا ہے

غزل
جو شخص مرا دست ہنر کاٹ رہا ہے
وسیم ملک