جو سیل درد اٹھا تھا وہ جان چھوڑ گیا
مگر وجود پہ اپنا نشان چھوڑ گیا
ہر ایک چیز میں خوشبو ہے اس کے ہونے کی
عجب نشانیاں وہ میہمان چھوڑ گیا
نہ ساتھ رہنے کا وعدہ اگر کیا پورا
زمیں کا ساتھ اگر آسمان چھوڑ گیا
ذرا سی دیر کو بیٹھا جھکا گیا شاخیں
پرندہ پیڑ میں اپنی تھکان چھوڑ گیا
وہ واقعہ مرا کردار ابھرتا تھا جس میں
کہانی کار اسی کا بیان چھوڑ گیا
سمٹتی پھیلتی تنہائی سوتے جاگتے درد
وہ اپنے اور مرے درمیان چھوڑ گیا
بہت عزیز تھی نیند اس کو صبح کاذب کی
سو اس کو سوتے ہوئے کاروان چھوڑ گیا
رہا ریاضؔ اندھیروں میں نوحہ کرنے کو
وہ آنکھیں نوچنے والا زبان چھوڑ گیا
غزل
جو سیل درد اٹھا تھا وہ جان چھوڑ گیا
ریاض مجید