جو روز کی ہے بات وہی بات کرو ہو
بے کار ہی یارو غم حالات کرو ہو
اک مجھ سے ہی ملنے کو تمہیں وقت نہیں ہے
اوروں پہ تو اکثر ہی عنایات کرو ہو
یہ طرز تکلم تمہیں آیا ہے کہاں سے
ہونٹوں سے جو یہ پھولوں کی برسات کرو ہو
کیوں چاند سے چہرے پہ گرا رکھی ہیں زلفیں
کیوں دن کو اماوس کی سیہ رات کرو ہو
بے وہم و گماں راہ میں مل جاتے ہو اکثر
دانستہ کہاں مجھ سے ملاقات کرو ہو
غزل
جو روز کی ہے بات وہی بات کرو ہو
جاوید نسیمی