جو میرا ہوش کا عالم ہے بے خودی تو نہیں
میں جس کو اپنا سمجھتا ہوں اجنبی تو نہیں
خدا گری کا یہ ماہر کچھ اور ہی شے ہے
تم آدمی جسے کہتے ہو آدمی تو نہیں
یہ اور بات ہے محروم التفات ہوں میں
ترے کرم کے خزانے میں کچھ کمی تو نہیں
ثبوت ملتا ہے اس سے کسی تعلق کا
کمال برہمیٔ دوست دشمنی تو نہیں
نگاہ و دل میں بھی لازم ہے اک مروت و کیف
نمود عارض و گیسو ہی دلبری تو نہیں
نزول برق ہے شاید یہ آشیانوں پر
تو روشنی جسے سمجھا ہے روشنی تو نہیں
تمہارے چہرے پہ آثار ہیں خوشی کے مگر
جو میرے چہرے سے ظاہر ہے وہ خوشی تو نہیں
پئے شراب عبادت گزار ہوئے اے شیخ
مگر حضور یہ شایان بندگی تو نہیں
نہ جانے کیوں مرے دل کو یقیں نہیں آتا
جو تو نے جلوہ دکھایا ہے عارضی تو نہیں
سنا ہے توبہ سے ہوتا ہے تازہ تر ایماں
ہزار شکر کہ یہ عارضہ ابھی تو نہیں
تباہیوں کے لئے مستعد ہیں اہل جہاں
یہ آگہی کہیں توہین آگہی تو نہیں
بس ایک مرگ مسلسل بس ایک رنج دوام
کچھ اور شے ہے یہ اے عرشؔ زندگی تو نہیں
غزل
جو میرا ہوش کا عالم ہے بے خودی تو نہیں
عرش ملسیانی