EN हिंदी
جو جا چکے ہیں غالباً اتریں کبھی زینہ ترا | شیح شیری
jo ja chuke hain ghaaliban utren kabhi zina tera

غزل

جو جا چکے ہیں غالباً اتریں کبھی زینہ ترا

اعجاز عبید

;

جو جا چکے ہیں غالباً اتریں کبھی زینہ ترا
اے کہکشاں اے کہکشاں روشن رہے رستا ترا

خوں ناب‌ دل کی کشید آخر کو ترے دم سے ہے
کہنے کو میرا مے کدہ لیکن ہے مے خانہ ترا

پل بھر میں بادل چھا گئے اور خوب برساتیں ہوئیں
کل چودھویں کی رات میں کچھ یوں خیال آیا ترا

اے زندگی اے زندگی کچھ روشنی کچھ روشنی
چلا رہا تھا شہر میں مدت سے دیوانہ ترا

اب گایکوں میں نام ہے ورنہ جو اپنے گیت تھے
سارے دل کے زخم تھے دراصل احساں تھا ترا

غزلیں مری تیرے لیے یادیں تری میرے لیے
یہ عشق ہے پونجی مری یہ شعر سرمایہ ترا