EN हिंदी
جو اس زمیں سے کبھی پھر نمو کروں گا میں | شیح شیری
jo is zamin se kabhi phir numu karunga main

غزل

جو اس زمیں سے کبھی پھر نمو کروں گا میں

حنیف نجمی

;

جو اس زمیں سے کبھی پھر نمو کروں گا میں
تو چہرہ چہرہ تری جستجو کروں گا میں

ہوں درد مند تمہارا مگر یہ مت سوچو
جو تم کہو گے وہی مو بہ مو کروں گا میں

مری وفا میں کچھ اپنی غرض بھی شامل ہے
سو اپنے زخم کو پہلے رفو کروں گا میں

جو مجھ کو دیکھے گا فوراً پکار اٹھے گا
کہ اختیار تمہیں ہو بہو کروں گا میں

اگر جہاں میں کوئی آئنا نہیں تیرا
تو پھر تجھی کو ترے رو بہ رو کروں گا میں

یہ زندگی تو سریع الزوال ہے نجمیؔ
دل اپنا اس کے لیے کیوں لہو کروں گا میں