جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی
مرے مدعا پر نہیں ہو چکی
برا ہو مری ناتوانی ترا
نگاہ دم واپسیں ہو چکی
امید کرم کچھ نہ ساقی سے رکھ
کہ اب وہ مے ساتگیں ہو چکی
سناؤں اگر تا قیامت تو کیا
کہانی مری دل نشیں ہو چکی
کروں کس طرح اب میں عرض نیاز
کہ باقی ہے در اور جبیں ہو چکی
تراوش کہاں زخم دل میں وہ اب
کہیں کچھ رہی ہے کہیں ہو چکی
بس اب ہاتھ سے رکھ دو شیداؔ قلم
تمہاری غزل کی زمیں ہو چکی
غزل
جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی
حکیم محمد اجمل خاں شیدا