EN हिंदी
جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو | شیح شیری
jo dil ne kahi lab pe kahan aai hai dekho

غزل

جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو

زہرا نگاہ

;

جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو
اب محفل یاراں میں بھی تنہائی ہے دیکھو

پھولوں سے ہوا بھی کبھی گھبرائی ہے دیکھو
غنچوں سے بھی شبنم کبھی کترائی ہے دیکھو

اب ذوق طلب وجہ جنوں ٹھہر گیا ہے
اور عرض وفا باعث رسوائی ہے دیکھو

غم اپنے ہی اشکوں کا خریدا ہوا ہے
دل اپنی ہی حالت کا تماشائی ہے دیکھو