جو دل کو دیجے تو دل میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل
اگر نہ دیجے تو ووہیں کیا کیا جتاوے خفگی عتاب اکڑ بل
جو اس بہانے سے ہاتھ پکڑیں کہ دیکھ دل کی دھڑک ہمارے
تو ہاتھ جھپ سے چھڑا لے کہہ کر مجھے نہیں ہے کچھ اس کی اٹکل
جو چھپ کے دیکھیں تو تاڑ جاوے وگر صریحاً تو دیکھو پھرتی
کہ آتے آتے نگاہ رخ تک چھپا لے منہ کو الٹ کے آنچل
کرے جو وعدہ تو اس طرح کا کہ دل کو سنتے ہی ہو تسلی
جو سوچیے پھر تو کیسا وعدہ فقط بہانہ فریب اور چھل
نہ جل میں آوے نہ بھڑ کے نکلے نہ پاس بیٹھے نظیرؔ اک دم
بڑا ہی پر فن بڑا ہی سیانا بڑا ہی شوخ اور بڑا ہی چنچل
غزل
جو دل کو دیجے تو دل میں خوش ہو کرے ہے کس کس طرح سے ہلچل
نظیر اکبرآبادی