جو ڈر اپنوں سے ہے غیروں سے وہ ڈر ہو نہیں سکتا
یہ وہ خنجر ہے جو سینے سے باہر ہو نہیں سکتا
جو سچ پوچھو تو یہ تصویر بھی ہے سانحہ جیسی
کسی بھی سانحے پر کوئی ششدر ہو نہیں سکتا
کھٹکتی ہے کسی شے کی کمی اس دار فانی میں
شکستہ بام و در جس کے نہ ہوں گھر ہو نہیں سکتا
یہ آخر کیوں کہ ہر دن ایک موسم ایک ہی منظر
جہاں زیر و زبر ہو اس سے بہتر ہو نہیں سکتا
نہ شامل ہو جو آشفتہ خیالی ذہن محکم میں
وہ کچھ بھی ہو چمن زار معطر ہو نہیں سکتا
کلی کا لب بدن کندن کا قامت سرو کی لیکن
وفا نا آشنا میرے برابر ہو نہیں سکتا
فقط صورت میں کیا رکھا ہے اے حسن تماشا ہیں
کہ کار آئنہ سے میں سکندر ہو نہیں سکتا
کسی کو چاہنے سے باز آنا کیسے ممکن ہے
لکھا ہے جو کتابوں میں وہ اکثر ہو نہیں سکتا
ترے انکار کو اس زاویے سے دیکھتا ہوں میں
ترا ملنا بھی معیار مقدر ہو نہیں سکتا
یہ مانا عیب بھی ہیں سیکڑوں کس میں نہیں ہوتے
امین اشرفؔ مگر تجھ سا قلندر ہو نہیں سکتا
غزل
جو ڈر اپنوں سے ہے غیروں سے وہ ڈر ہو نہیں سکتا
سید امین اشرف