جو چار آدمیوں میں گناہ کرتے ہیں
خدا کی دی ہوئی عزت تباہ کرتے ہیں
بتوں کے ہوتے جو مہ پر نگاہ کرتے ہیں
قسم خدا کی بڑا ہی گناہ کرتے ہیں
بڑا ہی ظلم خدا کی پناہ کرتے ہیں
ہم آہ آہ تو وہ واہ واہ کرتے ہیں
وہ بوسہ دیتے نہیں گورے گورے گالوں کا
تمہیں گواہ ہم اے مہر و ماہ کرتے ہیں
بتو تمہیں پہ فدا ہیں بتو تمہیں پہ نثار
یقیں نہ ہو تو خدا کو گواہ کرتے ہیں
کبھی وہ دیکھتے ہیں اپنے تیغ و بازو کو
کبھی وہ غیظ سے مجھ پر نگاہ کرتے ہیں
مجال کیا ہے جو لوں نام اپنے قاتل کا
تمہیں پہ لوگ مگر اشتباہ کرتے ہیں
خیال رکھتے ہیں ہر وقت دوستی کا شریف
اسی طرح سے ہمیشہ نباہ کرتے ہیں
گناہ کیا ہے جو دل سے عزیز رکھتے ہیں
بنے ہو یوسف ثانی تو چاہ کرتے ہیں
اگر ہو صبر و قناعت کی دولت اے پرویںؔ
گدا بھی کرتے ہیں وہ ہی جو شاہ کرتے ہیں

غزل
جو چار آدمیوں میں گناہ کرتے ہیں
پروین ام مشتاق