EN हिंदी
جو بھی ملتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہوں میں | شیح شیری
jo bhi milta hai usi ko pujne lagta hun main

غزل

جو بھی ملتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہوں میں

شاہد جمال

;

جو بھی ملتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہوں میں
کیا کروں مجبوریوں ہیں گاؤں سے آیا ہوں میں

کل بھی احساسات کے شعلوں پہ تھا میرا وجود
آج بھی ہر لمحہ سونے کی طرح لگتا ہوں میں

مجھ سے ہی قائم ہے اب تک تیرا تہذیبی وقار
توڑ مت مجھ کو کہ گھر کا صدر دروازہ ہوں میں

میں ترے ساحل پہ آیا ہوں کہ دیکھوں تیرا ظرف
اے سمندر تجھ سے کس نے کہہ دیا پیاسا ہوں میں

سانس تک لینا بھی ہے دشوار جب اس شہر میں
زندگی تجھ پر مرا احسان ہے زندہ ہوں میں

لاکھ بنیادوں میں تو نے ڈھک کے رکھا ہے مجھے
اے حویلی کے کھنڈر اب بھی طرح حصہ ہوں میں

میں بضد ہوں اس پہ کہ سب مجھ کو سمجھیں آئینہ
جبکہ آئینہ بخوبی جانتا ہے کیا ہوں میں