جو بھی کچھ اچھا برا ہونا ہے جلدی ہو جائے
شہر جاگے یا مری نیند ہی گہری ہو جائے
یار اکتائے ہوئے رہتے ہیں ایسا کر لوں
آج کی شام کوئی جھوٹی کہانی ہو جائے
یوں بھی ہو جائے کہ برتا ہوا رستہ نہ ملے
کوئی شب لوٹ کے گھر جانا ضروری ہو جائے
یاد آئے تو بدلنے لگے گھر کی صورت
طاق میں جلتی ہوئی رات پرانی ہو جائے
ہم سے کیا پوچھتے ہو شہر کے بارے میں رضاؔ
بس کوئی بھیڑ جو گونگی کبھی بہری ہو جائے

غزل
جو بھی کچھ اچھا برا ہونا ہے جلدی ہو جائے
رؤف رضا