جو بے رخی کا رنگ بہت تیز مجھ میں ہے
یہ یادگار یار کم آمیز مجھ میں ہے
سیراب کنج ذات کو رکھتی ہے مستقل
بہتی ہوئی جو رنج کی کاریز مجھ میں ہے
کاسہ ہے ایک فکر سے مجھ میں بھرا ہوا
اور اک پیالہ درد سے لب ریز مجھ میں ہے
یہ کرب رائیگانیٔ امکاں بھی ہے مگر
تیرا بھی اک خیال دل آویز مجھ میں ہے
تازہ کھلے ہوئے ہیں یہ گلہائے زخم رنگ
ہر آن ایک موسم خوں ریز مجھ میں ہے
رکھتی ہے میری طبع رواں باب حرف میں
یہ مستقل جو درد کی مہمیز مجھ میں ہے
اب تک ہرا بھرا ہے کسی یاد کا شجر
عرفانؔ! ایک خطۂ زرخیز مجھ میں ہے
غزل
جو بے رخی کا رنگ بہت تیز مجھ میں ہے
عرفان ستار