EN हिंदी
جو بے گھر ہیں انہیں گھر کی دعا دیتی ہیں دیواریں | شیح شیری
jo be-ghar hain unhen ghar ki dua deti hain diwaren

غزل

جو بے گھر ہیں انہیں گھر کی دعا دیتی ہیں دیواریں

ظفر اقبال ظفر

;

جو بے گھر ہیں انہیں گھر کی دعا دیتی ہیں دیواریں
پھر اپنے سائے میں ان کو سلا دیتی ہیں دیواریں

اسیری ہی مقدر ہے تو کوئی کیا کرے آخر
مقید کر کے اپنے میں سزا دیتی ہیں دیواریں

ہماری زیست میں ایسے بھی لمحے آتے ہیں اکثر
دراروں کے توسط سے ہوا دیتی ہیں دیواریں

مری چیخیں فصیلوں سے کبھی باہر نہیں جاتیں
شکستہ ہو کے گرنے پر صدا دیتی ہیں دیواریں

میسر گھر نہیں جن کو جو راہوں میں بھٹکتے ہیں
ظفرؔ ان کو مکانوں کا پتہ دیتی ہیں دیواریں