جتنا تھا سرگرم کار اتنا ہی دل ناکام تھا
ہوش جس کا نام ہے وہ بھی جنون خام تھا
ہوش کا ضامن تھا ساقی کیف پرور دل کا شوق
جام تھا پاس اور بے اندیشۂ انجام تھا
ختم کرتی جلد کیوں کر زیست کی منزل کو سانس
پھیر کوسوں کا تھا لیکن فاصلہ اک گام تھا
جوش شوریدہ سری تھا تا بہ وہم اختیار
تھک کے دم ٹوٹا تو پھر آرام ہی آرام تھا
اب کہاں وہ آمد و رفت نفس کی شاہ راہ
اک کشاکش تھی کہ جس کا زندگانی نام تھا
چونک کر خود منظر ہستی سے آنکھیں پھیر لیں
ہچکیاں کاہے کو تھیں پوشیدہ اک پیغام تھا
گل ہوا آخر بھڑک کر شعلۂ جوش شباب
تھی کف موج حوادث اور چراغ شام تھا
بے جلے کس طرح بنتا شمع پروانے کا دل
وہ اسے انجام کیا دیتے جو میرا کام تھا
تم نے خود ناکام رکھ کے اس کی ہمت کی تھی پست
آرزوئے بے گنہ پر مفت کا الزام تھا
غزل
جتنا تھا سرگرم کار اتنا ہی دل ناکام تھا
آرزو لکھنوی