EN हिंदी
جتنا چاہوں گی تم وہاں تک ہو | شیح شیری
jitna chahungi tum wahan tak ho

غزل

جتنا چاہوں گی تم وہاں تک ہو

سیدہ کوثر منور شرقپوری

;

جتنا چاہوں گی تم وہاں تک ہو
اب بتاؤ کہ تم کہاں تک ہو

نارسائی ہی جگ ہنسائی ہے
ہاں رسائی کی تم کماں تک ہو

بات اچھی بھی ہے مگر پھر بھی
اس بڑھاپے میں تم جواں تک ہو

اپنی موج ہوس کے عرصے میں
ٹوٹی کشتی کے بادباں تک ہو

آج کے دور میں مکاں کیسا
آسمانوں کے آسماں تک ہو

اپنی ہستی میں بد گمانی تھی
سانس میں سانس کے گماں تک ہو

عمر کا حادثہ شجر کیا تھا
اک کلی ہو تو باغباں تک ہو

بد گمانی کا ڈول ڈال کے دیکھ
عرش پر تم فقط زیاں تک ہو

ماورا ہے یہاں نہ ماسوا کو
تم جو باقی ہو بس گماں تک ہو