جسم پر صابن تھا پانی غسل خانے سے گیا
آپ کی مسٹیک ٹھہری میں نہانے سے گیا
اک منسٹر نے سجائی محفل رقص و سرور
ناچنے والی کا بل قومی خزانے سے گیا
قادری نے ڈانٹ کچھ ایسی پلائی شیر کو
شیر مسلم لیگ کا تھا دم ہلانے سے گیا
آ گیا تھا ایک شاعر دوست پاکستان سے
چائے سے ٹھہرا رہا وہسکی پلانے سے گیا
فلم تقسیم وراثت کا یہی دی اینڈ ہے
درد کچھ ایسا تھا جو گردن دبانے سے گیا
اک غریب استاد کی ٹیوشن ٹھکانے لگ گئی
ماجدہ دلہن بنی ٹیچر پڑھانے سے گیا
اس کے گالوں پر کئی دست حنائی ثبت ہیں
عشق کا نشہ تھا آخر مار کھانے سے گیا
اتنی مہنگائی ہے بریانی کوئی لاتا نہیں
پھر کوئی بھوکا مجاور آستانے سے گیا
اس کی میت میں سبھی اخبار پڑھ پڑھ کر گئے
خالدؔ عرفان شاعر تھا بلانے سے گیا
غزل
جسم پر صابن تھا پانی غسل خانے سے گیا
خالد عرفان