EN हिंदी
جسم کی چوکھٹ پہ خم دل کی جبیں کر دی گئی | شیح شیری
jism ki chaukhaT pe KHam dil ki jabin kar di gai

غزل

جسم کی چوکھٹ پہ خم دل کی جبیں کر دی گئی

خورشید رضوی

;

جسم کی چوکھٹ پہ خم دل کی جبیں کر دی گئی
آسماں کی چیز کیوں صرف زمیں کر دی گئی

میرے ہاتھوں کی لکیروں ہی میں خم رکھا گیا
میری افتاد طبیعت ہی غمیں کر دی گئی

کل مری بے خواب آنکھوں کے مقابل رات بھر
نقش تاروں میں وہ چشم سرمگیں کر دی گئی

خون رلواتی رہی گزرے زمانوں کی شبیہ
تھک گئیں آنکھیں تو غرق ساتگیں کر دی گئی

کھوٹ سونے کے تسلسل میں کہیں آئی ضرور
یوں عبث تو سعیٔ دل باطل نہیں کر دی گئی

تلخ کر لیتا ہوں ہر لذت کی شیرینی کو میں
کیوں نگہ میری نگاہ پیش بیں کر دی گئی

نقش آخر دل سے اس روئے حسیں کا مٹ گیا
ختم آخر صحبت نام و نگیں کر دی گئی