EN हिंदी
جسم کے خول میں اک شہر انا رکھا ہے | شیح شیری
jism ke KHol mein ek shahr-e-ana rakkha hai

غزل

جسم کے خول میں اک شہر انا رکھا ہے

ابن امید

;

جسم کے خول میں اک شہر انا رکھا ہے
نام جیون کا تبھی ہم نے سزا رکھا ہے

ہم مکینوں کو نہیں کوئی خوشی سے مطلب
فیصلہ شہر کے والی نے سنا رکھا ہے

خوشیاں جا بیٹھیں کہیں اونچی سی اک ٹہنی پر
دل کے بہلانے کو اک لفظ قضا رکھا ہے

آنکھوں میں خواب چبھن سونے نہیں دیتی ہے
ایک مدت سے ہمیں تو نے جگا رکھا ہے

جن کو انسان بھی کہنا نہیں جچتا فرخؔ
ان کو معبود زمانے نے بنا رکھا ہے