جسم کے خول میں اک شہر انا رکھا ہے
نام جیون کا تبھی ہم نے سزا رکھا ہے
ہم مکینوں کو نہیں کوئی خوشی سے مطلب
فیصلہ شہر کے والی نے سنا رکھا ہے
خوشیاں جا بیٹھیں کہیں اونچی سی اک ٹہنی پر
دل کے بہلانے کو اک لفظ قضا رکھا ہے
آنکھوں میں خواب چبھن سونے نہیں دیتی ہے
ایک مدت سے ہمیں تو نے جگا رکھا ہے
جن کو انسان بھی کہنا نہیں جچتا فرخؔ
ان کو معبود زمانے نے بنا رکھا ہے
غزل
جسم کے خول میں اک شہر انا رکھا ہے
ابن امید